مندرجات کا رخ کریں

قمل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
قمل یا جوں

قمل (Louse) حضرت موسیٰ علیہ السلام صداقت کے 9 نشانات میں سے ایک نشان (معجزہ) جو قبطیوں پر بطور عذاب آیا ایک لفظ قمل ہے۔ جسے عموماً جوں (Louse)کہا جاتا ہے۔ جوں کی جمع جوئیں (Lice)ہیں۔

قمل کیا ہے

[ترمیم]

ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ قمل سے مراد گیہوں کا گھن ہے۔ مجاہد‘ سدی‘ قتادہ اور کلبی نے کہا قمل چھوٹی ٹڈیاں تھیں جن کے پر نہ تھے اور ٹڈی دل بڑی پردار ٹڈیوں کا تھا۔ عکرمہ نے قمل کو ٹڈیوں کے مادین بچے کہا ہے ابو عبید نے کہا قمل حمنان کو کہتے ہیں اور حمنان ایک قسم کی چچڑی ہوتی ہے۔ عطاء خراسانی نے کہا قمل کا معنی ہے جوں۔ روایت میں آیا ہے کہ اللہ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو حکم دیا کہ قریہ‘ عین الشمس علاقۂ مصر میں (فلاں) ریتیلے خاکستری رنگ کے ٹیلہ کی طرف جاؤ۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے حکم کی تعمیل کی وہ ٹیلہ ریگ رواں کا تھا۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اس پر لاٹھی ماری فوراً قمل اس کے اندر سے نکل کر پھیل گئیں اور قبطیوں کی جو کچھ کھیتیاں درخت اور سبزیاں رہ گئی تھیں سب کو چٹ کر گئیں کپڑوں کے اندر گھس کر بدن کو کاٹتی تھیں اور کھانا کھاتے میں کھانے میں بھر جاتی تھیں۔[1]

قمل کی لغوی تحقیق

[ترمیم]

قمل۔ اسم جنس ہے۔ واحد قملۃ۔ سر کے بالوں میں پڑنے والی جوں۔ گندگی پر بھنبھنانے والی باریک مکھیاں۔ بھنگے غلہ کو کھا جانے والا کیڑا۔ چچڑی کی جنس سے ۔[2] (قرآن میں قمل کا لفظ ہے جو چھوٹے چھوٹے جانداروں مثلاً چچڑی، مچھر، جوئیں، سُرسری اور ایسے ہی دوسرے کیڑوں کے لیے مستعمل ہے) کہ ذخیرہ کردہ غلہ پڑا پڑا ہی ناکارہ ہو جائے [3] القمل غلہ کو کھا جانے والا کیڑا چچڑی[4] قمل (کھٹمل، جوئیں) [5]’’ القمل‘‘ سے مراد ہے ایسی ٹڈی جس کے پر نہ ہوں۔ بعض لوگ قمل کے بارے میں یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ پسو ہے۔[6] قمل یعنی چچڑیاں[7][8]

وسیع مفہوم

[ترمیم]

لفظ قمل اس جوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے جو انسان کے بالوں اور کپڑوں میں پیدا ہوجاتی ہے اور اس کیڑے کو بھی کہتے ہیں جو غلہ میں لگ جاتا ہے جس کو گھن بھی کہا جاتا ہے۔ قمل کا یہ عذاب ممکن ہے کہ دونوں قسم کے کیڑوں پر مشتمل ہو کہ غلوں میں گھن لگ گیا اور انسانوں کے بدن اور کپڑوں میں جوؤں کا طوفان امڈ آیا۔ غلوں کا حال اس گھن نے ایسا کر دیا کہ دس سیر گیہوں پیسنے کے لیے نکالیں تو اس میں تین سیر آٹا بھی نہ نکلے۔ اور جوؤں نے ان کے بال اور پلکیں اور بھویں تک کھالیں۔[9]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی،الاعراف،133
  2. تفسیرانوارالبیان محمد علی،سورہ الاعراف133
  3. تفسیر تیسیر القرآن عبد الرحمن کیلانی،الاعراف 133
  4. تفسیرانوارالبیان محمد علی،سورہ ھود 96
  5. تفسیر مکہ،صلاح الدین یوسف،بنی اسرائیل101
  6. تفسیر در منثور جلال الدین سیوطی
  7. تفسیر معارف القرآن ادریس کاندہلوی،بنی اسرائیل،101
  8. تفسیر عثمانی مفسر مولانا شبیر احمد عثمانی
  9. تفسیر معارف القرآن مفتی محمد شفیع الاعراف133