مندرجات کا رخ کریں

عمرو بن مرہ تابعی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عمرو بن مرہ تابعی
معلومات شخصیت
عملی زندگی
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عمرو بن مرہ جلیل القدر تابعین میں سے ایک ہیں۔آپ کی مقبولیت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ سفیان ثوری ، امام اوزاعی اور شعبہ جیسے ائمہ کے استاد ہیں۔آپ نے 116ھ میں وفات پائی۔

نام ونسب

[ترمیم]

عمرو نام ،ابو عبد اللہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے، عمروبن مرہ بن عبد اللہ بن طارق بن الحارث ابن سلمہ بن کعب بن وائل بن جمل بن کنانہ بن ناحیہ بن مراد جملی مرادی۔

فضل وکمال

[ترمیم]

علمی اعتبار سے کوفہ کے ممتاز علما میں تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں "کان ثقۃ ثبتا اماما" مسعر کہتے ہیں کہ میں نے ان سے افضل کسی کو نہیں پایا۔ [1]

حدیث

[ترمیم]

حفظِ حدیث کے لیے یہ سند کافی ہے کہ حافظ ذہبی ان کو حافظ کا لقب دیتے ہیں، عبدالرحمن بن مہدی انھیں حفاظ کوفہ میں شمار کرتے تھے [2]حفص بن غیاث کا بیان ہے کہ میں نے اعمش سے عمرو بن مروہ کے علاوہ کسی کی تعریف نہیں سنی، وہ کہتے تھے کہ ابن مرہ اپنی روایات میں ماموں تھے، شعبہ کہتے تھے کہ تمام راویان حدیث سے حدیثوں میں کچھ نہ کچھ ردو بدل ہو جاتا ہے، صرف ابن عون اور عمروبن مرہ اس سے مستثنیٰ ہیں، مسعر کہتے تھے کہ وہ صدق کی کان ہیں [3] حدیث میں انھوں نے عبداللہ بن اوفی، ابووائل، مرۃ الطیب، سعید بن مسیب، عبد الرحمن ابن ابی لیلیٰ، عبد اللہ بن حارث نجرانی، عمرو بن میمون ادوی، عبداللہ بن سلمہ، حسن بن مسلم، خیثمہ بن عبد الرحمن ، سعد بن عبادہ ،سعید بن جبیر اور ابرہیم نخعی جیسے علما سے استفادہ کیا تھا، ابو اسحٰق سبیعی ، اعمش، منصور، زید بن ابی انیسہ، مسعر، علاء بن مسیب، اوزاعی ،ابن ابی لیلی، ثوری، شعبہ وغیرہ آپ کے زمرہ تلامذہ میں تھے۔ [4]

نماز میں اخلاص

[ترمیم]

اس علم کے ساتھ وہ عمل کے زیور سے آراستہ تھے، نماز اس خضوع سے پڑھتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا ،پڑھتے ہی مغفرت ہوجائے گی، شعبہ بیان کرتے ہیں کہ جب جب میں نے عمرو بن مروہ کو نماز پڑھتے دیکھا، ہمیشہ یہی خیال ہوا کہ نماز سے لوٹنے کے قبل ہی ان کی قبولیت ہو جائے گی ۔ [5]

وفات

[ترمیم]

آپ نے 116ھ میں وفات پائی، جنازہ میں عبد الملک بن میسرہ کی زبان پر یہ کلمہ تھا کہ وہ خیر البشر تھے۔ [6]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. (تذکرہ الحفاظ:1/108)
  2. (ایضاً)
  3. (تہذیب التہذیب:8/12،13)
  4. (تہذیب التہذیب:8/102)
  5. (ابن سعد:6/220)
  6. (ابن سعد:6/220)