مندرجات کا رخ کریں

اغالبہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلطنتِ بنو اغالبہ

اغلبی (عربی: الأغالبة) افریقیا کی ایک عربی نژاد سلطنت تھی جس نے سسلی، جنوبی اٹلی اور ممکنہ طور پر سارڈینیا کے کچھ حصّوں کو فتح کیا تھا۔ یہ سلطنت خلافت عباسیہ کی ایک ماتحت حکومت تھی۔[1]

اغالبہ کا تعلق نجدی قبیلہ بنو تمیم سے تھا۔ سلطنت کا سرکاری مذہب حنفی اِسلام تھا۔ اغالبہ معتزلی عقلی نظریے پر کاربند تھے جسے انہوں نے افریقیہ کے ریاستی نظریے کے طور پر نافذ کیا تھا۔ جبکہ سرکاری فِرقہ کےطور پر معتزلیت کو افریقیا میں زیرِ فرمان علاقوں پر تھوپ دیا گیا تھا۔ اغالبہ کی حکومت 909ء تک قائم رہی یہاں تک کہ فاطمیوں نے اِن کی بساطِ حکومت اُلٹ ڈالی۔

تاریخ[ترمیم]

بنو مہلب کے زوال کے بعد رُونما ہونے والے سیاسی انتشار کے سبب 800ء میں خلیفہ ہارون الرشید نے بنو تمیم قبیلہ سے تعلق رکھنے والے ایک خُراسانی عربی کمان دار کے بیٹے اِبراہیم اوّل کو افریقیا کا والی مقرّر کیا اور اُسے یہ عہدہ وراثتاً عطا کر دِیا۔[2] اس تقرّری کے وقت افریقیا میں عربوں کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی جب کہ بربر اکثریت میں تھے۔ زیادہ تر عرب تارکینِ وطن شام اور عراق سے آئے تھے جن کی بڑی اور نُمایاں تعداد نے آغاز سے ہی مغربی علاقے کا رُخ کیا تھا۔[3]

ابراہیم اب ایک ایسے علاقے کا خود مختار حاکم تھا جس میں آج کے مشرقی الجزائر، تیونس اور طرابلسیہ شامل ہیں۔[4] ابراہیم کو دیے گئے علاقے کی حد بندی نہیں کی گئی تھی کیوں کہ یہ علاقے نظریاتی طور پر برقہ کے مغرب میں واقع المغرب کے تمام مغربی علاقوں کو گھیرے ہوئے تھے، اور ان میں نئے فتح شدہ علاقوں کو بھی پیشِ نظر رکھا گیا۔[3] اگرچہ یہ سلطنت اپنے داخلی معاملات میں آزاد اور خود مختار تھی مگر اس کے باوجود اس کے امراء عباسی خلافت کی بالادستی کو تسلیم کرتے تھے۔ امرائے اغلبیہ دربارِ عباسیہ میں سالانہ 8 لاکھ درہم خراج بھجواتے تھے اور خطباتِ جمعہ میں اپنے حدود میں واقع سبھی مساجد میں عباسی خلیفہ کا نام بھی لیتے تھے۔[3]

اپنی حدودِ سلطنت میں قیامِ امن کے بعد ابراہیم ابن الاغلب نے قیروان کے باہر 800ء میں ایک نئے دار الحکومت کی بنیاد رکھی اور اس کی تعمیر کا کام 801ء اور 810ء کے درمیانی عرصہ میں جاری رہا۔[1] اس نئے دار الحکومت کا نام العباسیہ تجویز کِیا گیا۔ اس نئے دار الحکومت کی تعمیر کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس طرح ابراہیم جزوی طور پر اپنے آپ کو مالکی فقہاء اور ماہرین الہٰیات کی مخالفت سے دُور رکھنا چاہتا تھا جو اغلبیوں کی عیش و عشرت کی زندگی کی مذمّت کرتے تھے اور حنفی فقہ اور معتزلی مسلک کے حامل ہونے کے سبب اپنے نئے حاکموں سے منتفر بھی تھے۔ ان وجوہات کے علاوہ مسلمان بربروں سے اغلبی حاکم کا غیر مساویانہ سلوک بھی ان فقہاء کو ابراہیم کی مخالفت پر اُکساتا تھا جس سے عاجز آ کر اُس نے یہ نیا دار الحکومت بسایا تھا۔[5] مزید برآں، امرائے اغلبیہ نے سرحدی دفاع کا بندوبست بھی کیا اور ساحلی شہروں جن میں سوسہ اور مناستر کے شہر قابلِ ذِکر ہیں، وہاں رباط قائم کرائے۔ اغلبیوں نے زیرِ فرمان علاقے کی آب پاشی بھی کی اور افریقیہ کی عوامی عمارتوں اور مساجد کو بھی مزید بہتر بنایا۔[4] بحیرۂ روم کی معیشت کے تحت بین الصحارائی تجارت اور سسلی و اٹلی جیسی دیگر سرزمینوں پر چھاپوں کے ذریعے سے غلاموں کی بڑی کھیپ بھی اغلبی دور میں حاصل کی گئی۔[6]

اغلبی فوج دو اہم عناصر پر مبنی تھی۔ پہلا عنصر تو جند پر مشتمل تھا جس میں عرب قبائل کے اُن رضا کار سپاہیوں کی اولادیں شامل تھیں جنھوں نے شمالی افریقا کی ابتدائی مسلم فتوحات میں حصہ لیا تھا۔[6] فوج کا دوسرا عنصر غلاموں پر مبنی تھا جنھیں بڑی تعداد میں اس باعث بھرتی کیا گیا تھا تاکہ جزوی طور پر جند کی عسکری طاقت کو متوازن رکھا جا سک��۔ صرف دار الحکومت العباسیہ کی چھاؤنی میں 5 ہزار کے لگ بھگ حبشی غلاموں کی تعیناتی کا بیان ملتا ہے۔[6]

زیادۃ اللہ اوّل (دورِ حکومت: 817ء تا 838ء) کے دور میں سنہ 824ء میں عرب فوجوں (جند) کی بغاوت رُونما ہوئی تھی، یہ بغاوت عربی فوجوں اور اغلبی امیر کے مابین عسکری تصادم کا آخری لیکن سب سے سنگین واقعہ تھا۔[7] اس بغاوت کی قیادت منصور بن نصر التنبوذی نامی ایک کمان دار نے کی تھی جو تیونس کے قریب ایک قلعہ کا حاکم تھا۔ ستمبر 824ء میں باغی سپاہیوں نے قیروان اور تیونس پر قبضہ کر لیا تھا مگر ایک ماہ بعد اغلبی امیر اُن کی بغاوت فرو کرنے میں کامیاب رہا اور اُنھیں قیروان سے بے دخل کر کے باغیوں کے سردار منصور کو قتل کر دِیا۔ اس پر ایک اور امیر عامر بن نافع نے باغیوں کی قیادت سنبھال لی اور زیادۃ اللہ کی افواج کو بدترین شکستوں سے دو چار کِیا۔ آخر نفزاوة علاقہ کے رہائشی اباضیہ فرقہ کے بربروں کی مدد سے امیر نے اِس بغاوت کا خاتمہ کیا۔ یہ بغاوت تین سال مسلسل جاری رہ کر 827ء میں ختم ہوئی تھی۔[7]

838-39ء (224ھ) میں الجرید خطہ کے جنوب مغربی صوبہ قسطیلیہ میں کثیر آبادی کے حامل اباضیہ فرقہ کے مسلمانوں نے بغاوت کر دی۔ اس کے نتیجہ میں اغلبیوں نے اُسی سال اس خطہ کے مرکزی شہر توزر پر قبضہ کر لیا۔[8]

صقلیہ کی فتح[ترمیم]

827ء میں جب کہ زیادۃ اللہ نے بغاوت کو فرو کر دِیا تھا، فوراً بعد صقلیہ کی فتح کے لیے تیاریاں کی گئیں۔ اس مہم کی کمان قیروان کے قاضی اسد بن فرات کے سپرد کی گئی۔[9] اس حملے کا محرک سسلی میں رُونما داخلی بغاوت بنی تھی۔ سسلی پر تب بازنطینیوں کی عمل داری قائم تھی اور وہاں یوفیمیوس نامی ایک کماندار نے باغی ہو کر اغلبی امیر سے بازنطینیوں کے خلاف عسکری مدد طلب کی تھی۔

خلافت عباسیہ اور امارت قرطبہ کے مابین سیاسی مخالفت کے باوجود اندلسی مسلمانوں نے اصبع ابن وکیل کی قیادت میں ایک بحری بیڑہ اغلبیوں کی مدد کے لیے روانہ کِیا۔ ابن کثیر کا بیان ہے کہ اس معرکہ میں اغلبی اور اندلسی اُموی بحری جہازوں کی کُل مشترکہ تعداد 300 کے لگ بھگ تھی۔[10] مِيناو (سسلی کے علاقہ قطانیہ کا شہر) میں واقع اغلبی فوج کے دستے نے اُموی فوج سے رابطہ قائم کِیا تو جواباً اموی فوج نے اتحاد پر رضا مندی ظاہر کر دی مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کی کہ اصبع ابن وکیل کو تمام فوجوں کی سالاری دی جائے اور اغلبی فوج کے پہلو بہ پہلو میناو کی جانب کوچ شروع کِیا گیا۔

میناو پر بازنطینی جنرل تھیوڈوٹس تعینات تھا جس نے جولائی یا اگست 830ء میں قَصْرُ يَانِه کی جانب پسپائی اختیار کی اور میناو پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔[11] شہر کا قبضہ پاتے ہی افریقا اور اندلس کی مشترکہ فوجوں نے شہر کو نذرِ آتش کر کے بارافرانکا کا رُخ کِیا جو قریب ترین واقع قصبہ تھا مگر مسلم فوجوں کے پڑاؤ میں طاعون کی وبا پُھوٹ پڑنے سے اصبع اور بہت سے سپاہی جان کی بازی ہار گئے۔ یہ قصبہ بھی مسلمانوں نے فتح کر لیا لیکن اب عرب فوجوں کی تعداد اس قدر قلیل رہ گئی تھی کہ عربوں کے پاس شہر کا انتظام چھوڑ کر پسپائی اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ بچا تھا۔ تھیوڈوٹس نے اس موقع کو غنیمت خیال کرتے ہوئے مسلم فوجوں کا تعاقب شروع کِیا اور اُنھیں بھاری جانی نقصان پہنچایا جس کے نتیجے میں اندلسی فوج کے دستوں نے جزیرے سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ دورانِ تعاقب ایک جھڑپ میں تھیوڈوٹس خود بھی مارا گیا۔[11]

فتوحاتِ صقلیہ کی مہمات وقفے وقفے سے جاری رہیں اور کئی سالوں میں متعدد مہمات کے نتیجے میں مغرب سے مشرق تک صقلیہ کے کئی علاقے مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئے۔ بَلَرم 831ء میں فتح کِیا گیا تو اسے صقلیہ کی نوزائیدہ مسلم حکومت کا دار الحکومت اور مزید فتوحات کے لیے فوجی اڈّہ بنا لیا گیا۔[12] 842ء یا 843ء میں ناپولی کے چند باشندوں کی امداد سے میسینا فتح ہوا تو اسے اطالوی جزیرہ نما میں مزید مہمات کے لیے فوجی اڈّہ کی حیثیت دے دی گئی۔[13] 878ء میں سَرَقُوسَہ فتح ہوا۔[12] صقلیہ کی فتوحات دھیرے دھیرے اور غیر مساوی رفتار سے جاری رہی یہاں تک کہ 902ء میں تاورمينا شہر بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا مگر جزیرے کی مکمل فتح تاحال نہ ہو سکی تھی۔[14] اس عرصہ میں مقامی بازنطینی و عیسائی باشندوں کی مزاحمت 967ء میں اغلبی حکومت کے خاتمہ کے بعد بھی برابر جاری رہی۔[15]

جزیرہ نما اٹلی میں فتوحات[ترمیم]

بلادِ صقلیہ کی فتوحات کے پہلو بہ پہلو اغلبیوں نے اطالوی سرزمینوں کی تسخیر بھی شروع کر دی تھی۔ گمان غالب ہے کہ قَلَوْرِيَہ اور بوليا، نیز دیگر وسطی بحیرۂ روم کے جزائر پر اغلبی فوج کے حملے فتوحاتِ صقلیہ میں توسیع کی غرض سے کیے گئے تا کہ خطے میں واقع بازنطینی چھاؤنیوں پر حملوں کے ذریعہ صقلیہ میں جاری مسلم فتوحات کو تحفظ اور مدد فراہم کی جا سکے۔ جزیرہ نما اطالیہ میں ابتدائی بڑی مہمات 835ء اور 843ء کے درمیان انجام پائی تھیں۔ آمانتئا کو اغلبی فوج نے 839ء یا 846ء میں فتح کیا تھا، یہ قبضہ 886ء تک برقرار رہا یہاں تک کہ بازنطینیوں نے یہ شہر مسلمانوں سے واپس حاصل کر لیا۔ تارانتو 840ء میں فتح ہوا اور یہاں 40 سال مسلمانوں کی حکومت قائم رہی، آخر 880ء میں یہ بھی بازنطینوں نے حاصل کر لیا۔[15] باری کی تسخیر 840ء یا 847ء میں ہوئی۔[16] 846ء میں روم پر ایک مسلم فوج کے حملے کی اطلاع ملتی ہے تاہم یہ یقینی نہیں ہے کہ حملہ آور مسلم فوج کا تعلق اغلبی علاقے سے تھا بھی یا نہیں لیکن اٹلی پر مسلمانوں کے پے بہ پے حملوں کے پیشِ نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حملہ بھی اغلبی فوجی دستے نے کِیا ہو گا۔[17] 849ء میں روم پر ایک اور حملہ ہوا جس کے نتیجے میں اوستیا کے قریب ایک شدید نوعیت کی بحری جنگ چھڑی، اس جنگ میں مسلمانوں کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور اُن کا بحری بیڑہ تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں جزیرہ نما اٹلی پر مسلم فوجوں کی مزید پیش قدمی جاری نہ رہ سکی۔[18]

مالٹا، سارڈینیا اور کورسیکا[ترمیم]

وسطی بحیرۂ روم کے دیگر مقامات پر بھی اغلبی فوج نے پیش قدمی کی، چناں چہ 870ء میں مالٹا کا جزیرہ تسخیر ہوا اور سارڈینیا اور کورسیکا کے جزائر پر بھی حملہ کِیا گیا۔[2] بعض جدید ماخذات میں یہ دعویٰ کِیا گیا ہے کہ سارڈینیا پر مسلمانوں کا قبضہ 810ء کے لگ بھگ یا 827ء میں فتوحاتِ صقلیہ کے آغاز کے بعد کسی وقت ہوا تھا۔[19] مغربی مؤرخین کا یہ دعویٰ ہے کہ اس جزیرے پر مسلمان اغلبی دور میں آئے تھے تاہم اُن کا اقتدار یہاں ساحلی مقامات پر محدود صورت میں قائم رہا کیوں کہ مقامی بازنطینی حکومت کے ساتھ اُن کے تعلقات کی نوعیت معاندانہ تھی۔[20] لنکاسٹر یونیورسٹی کے سینیئر لیکچرر ڈاکٹر ایلیکس مٹکاف اس ضمن میں یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ مسلم قبضے کے دوران جزیرے پر اُن کی موجودگی کے دستیاب شواہد نہایت محدود ہیں جن سے ہم کوئی معنی خیز نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے، لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں مسلمانوں کا قبضہ محض چھاپہ مار حملوں تک ہی محدود رہا ہو گا۔[9] زیادہ تر سارڈینیائی مؤرخین اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ مقامی تاریخی شواہد سے دستیاب ناکافی معاون ثبوتوں کی بنیاد پر یہاں مسلمانوں کے قبضہ کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور اس بات سے انکاری ہیں کہ سارڈینیا پر کبھی مسلمانوں کی حکومت رہی ہو گی۔

داخلی سیاست کی صورت حال[ترمیم]

فتوحاتِ صقلیہ کی مہم جو امیر زیادۃ اللہ اوّل نے 824ء میں جند بغاوت کے خاتمہ پر شروع کی تھی، نے افریقیا کی بے کار فوج کو اپنی عسکری توانائیوں کے لیے ایک نئی راہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اغلبی ریاست کے لیے بھی آمدنی کی نئی صورت پیدا کی۔ اُمرائے اغلبیہ کو فقہ مالکی کے علماء کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا تھا جو خطے میں اپنے وسیع مذہبی اثر و رسوخ کے مالک تھے۔ اس مسئلے کا حل اُنھوں نے یہ نکالا کہ مالکی علماء کو قومی دھارے میں لے آئے اور اُنھیں اعلیٰ سطحی مذہبی عہدوں پر مقرّر کِیا گیا، اس طرح اُن کی مخالفت کا طوفان بھی تھم سا گیا۔ جہاں تک بے جا اصراف اور عیش کوشی کے حوالے سے تنقید کا معاملہ ہے، اُمرائے اغلبیہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ رعایا کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام شروع کر دِیا۔ وہ غریبوں کو خیرات دینے لگے اور مساجد کی تعمیر اور اُن کی تزئین و مُرمّت اور توسیع کے کاموں کی سرپرستی کرنے لگے۔ اس ترکیب سے اُنھوں نے اپنی دولت اور استحقاق پر بے جا تنقید کا کامیابی سے مقابلہ کِیا۔[7] ان تمام عوامل کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ 827ء کے بعد افریقیا کی داخلی صورتِ حال میں بہتری آنا شروع ہوئی اور تمام مملکت میں اندرونی استحکام اور امن و امان آ گیا۔[7] زراعت اور بین الصحارائی تجارت کو بھی اغلبی حکمرانی کے تحت مزید ترقی دی گئی، اس کے نتیجے میں اقتصادی ترقی اور شہری آبادی میں اضافہ ہوا۔[7]

احمد بن محمد الاغلبی (دورِ حکومت: 856–863) کے دور میں اغلبی ریاست درجہ کمال کو پہنچ گئی تھی۔ افریقیا اپنی زرخیز زراعت کی بدولت ایک اہم معاشی طاقت بن گئی تھی جسے رومی آب پاشی کے توسیعی نظام کی مدد حاصل تھی اور یہ تمام خطہ اِسلامی دُنیا اور بازنطیم اور اٹلی کے درمیان تجارت، بالخصوص منافع بخش غلاموں کی خرید و فروخت کا مرکز بن گیا تھا۔ قیروان خطہ المغرب میں تعلیم و تعلّم کا سب سے اہم مرکز بن گیا، خصوصاً دینیات اور فقہ کے شعبوں میں یہاں بہترین تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ شہر شاعروں کے اجتماع کی بہترین جگہ بھی مانی جاتی تھی۔ امرائے اغلبیہ نے تعمیراتی منصوبوں کی سرپرستی کی، قیروان کی جامع مسجد کی تعمیرِ نو کے حوالے سے خصوصی دِلچسپی کا مظاہرہ کِیا گیا۔ اغلبی سلطنت نے فنِ تعمیر کے حوالے سے بھی ایک بڑی پیش رفت کی اور اپنا ایک تعمیراتی انداز تیّار کِیا جس کے عبّاسی اور بازنطینی فنونِ تعمیر یکجا ہو گئے۔[21] 876ء میں اِبراہیم الثانی نے دار الحکومت العبّاسیہ سے تبدیل کر کے رقّادة کو بنایا۔ نئے دار الحکومت میں ایک مسجد، حمام، بازار اور کئی محلات تھے۔ اپنی بقیہ زندگی، ابراہیم الثانی نے نئے دار الحکومت کے قصر الفتح نامی محل میں قیام کِیا۔ یہ محل اُن کے بعد اُن کے جانشینوں کی رہائش گاہ بھی رہا۔[22]

انحطاط اور زوال[ترمیم]

آلِ اغلب کے زوال کا آغاز اِبراہیم الثانی (دورِ حکومت: 875–902) کے دور میں ہوا۔ مصر کے طولونی حکام کی جانب سے حملوں کی روک تھام اور بربروں کی بغاوتیں کچلنے میں اغلبیوں کو بہت زیادہ جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ 893ء میں عبیداللہ مہدی کے داعی ابُو عبد اللہ الشیعی نے کُتَامَہ قبیلہ کے بربروں کی مدد سے اسماعیلی مسلک کے فاطمیوں کی سِیاسی و مذہبی تحریک کا آغاز کِیا۔ ایک دہائی کے عرصہ میں اس تحریک نے اس قدر زور پکڑ لیا کہ اغلبی ریاست کے لیے بڑا خطرہ بن گئی۔[14]

902ء میں اِبراہیم الثانی نے بنفسِ نفیس صقلیہ اور اطالیہ میں فوجی مہم کی قیادت کی اور اس طرح وہ سسلی اور اٹلی میں بذاتِ خود جا کر جہاد کرنے والا واحد اغلبی امیر بنا۔[23] صقلیہ میں دورانِ قیام ابُو عبد اللہ الشیعی نے موجودہ مشرقی الجزائر کے شہر میلہ پر حملہ کِیا اور اسے اپنے زیرِ فرمان لے آیا۔ یہ اقدام شمالی افریقا میں اغلبی ریاست کے اختیار پر پہلا قابلِ ذِکر حملہ تھا۔ اغلبیوں میں اس خبر نے شدید ردِّ عمل کو جنم دِیا اور اکتوبر میں 12 ہزار سپاہیوں پر مبنی ایک لشکر تیّار کر کے کُتَامَہ بربروں کی سرکوبی کے لیے تیونس سے روانہ کِیا گیا۔ ابُو عبد اللہ کی افواج کو جب اس لشکر کی روانگی کی اطلاع ملی تو وہ مجبور ہو گئی کہ تزروت میں واقع اپنی چھاؤنی سے فرار ہو کر ايكجان (الجزائر کا ایک شہر) میں دوبارہ اپنی تنظیمِ نو پر توجّہ دے۔[24]

اکتوبر 902ء میں کوزینتسا کے محاصرہ کے دوران اِبراہیم الثانی نے وفات پائی اور عبد اللہ الثانی اُس کا جانشین ہوا۔ 27 جولائی 903ء کو عبد اللہ الثانی قتل ہوا تو اُس کے بیٹے زیادۃ اللہ الثالث نے اِقتدار سنبھالا اور قصر الفتح میں قیام ترک کر کے تیونس کو اپنا مرکز بنایا۔[24] اغلبیوں کی ان داخلی مشکلات نے ابُو عبداللہ کو میلہ پر دوبارہ قبضہ کرنے اور پھر اکتوبر یا نومبر 904ء تک سطیف پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم کِیا۔[7] اس کے بعد فاطمیوں کے عُروج کا دور شروع ہو گیا۔ اغلبیوں کو ابُو عبد اللہ کی تحریک کچلنے میں زیادہ کامیابی نہ ملی۔ فاطمیوں کے اس بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر زیادۃ اللہ الثالث نے تیونس میں اپنا قیام ختم کر کے 907ء میں رقّادہ کو دوبارہ اپنا مرکز بنایا اور اس کی قلعہ بندی پر توجّہ دی۔ اُسی سال افریقا اور وسطیٰ مغرب کے مابین جنوبی رومی سڑک پر واقع بغای کا قلعہ بند شہر کُتَامہ بربروں نے فتح کر لیا۔ اس سے افریقیا کے وسیع دفاعی نظام میں رخنے پیدا ہو گئے اور رقّادہ میں خوف و ہِراس نے جنم لیا۔ اس کے جواب میں زیادۃ اللہ الثالث نے فاطمی مخالف پروپیگنڈے میں تیزی لاتے ہوئے فوج میں رضا کاروں کی بھرتی کو یقینی بنایا اور قلعہ بندی کے لحاظ سے کم زور شہر قیروان کے دفاع کے لیے مناسب اقدامات کیے۔ 908ء میں اُس نے بذاتِ خود کُتَامہ فوج کے خلاف ایک جنگ میں حصّہ لیا جس میں کسی بھی فریق کو کامیابی نہ مل سکی اور یہ معرکہ غیر فیصلہ کن رہا۔ یہ معرکہ ممکنہ طور پر سبيطلہ اور قصرین کے مابین دار مدیان نامی ایک مقام پر لڑا گیا تھا۔ 908-909ء کے موسم سرما میں ابُو عبد اللہ نے شط الجريد کے نواحی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ بغای کے دوبارہ حصول کے لیے اغلبی فوج نے مہم جوئی کی مگر اُنھیں بربروں کے مقابلے میں ناکامی ہوئی۔[25]

25 فروری 909ء کو ابُو عبد اللہ دو لاکھ سپاہیوں کی فوج کے ساتھ قیروان پر فیصلہ کن حملے کے لیے ایکجان سے روانہ ہوا۔ اغلبی شاہزادے اِبراہیم بن ابی الاغلب کے زیرِ قیادت دستیاب اغلبی فوج نے 18 مارچ کو العُربُس کے قریب کُتَامَہ فوج کو جا لیا۔ دونوں فوجوں میں زبردست جنگ ہوئی جو دوپہر تک جاری رہی، یہاں تک کہ کُتَامہ گھڑ سواروں کا ایک دستہ اغلبی فوج کے چاروں اطراف پھیل گیا اور اس ترکیب سے اغلبی فوج کو شکستِ فاش سے دو چار کر دِیا۔[26] جب اس شکست کی خبر رقّادہ پہنچی تو زیادۃ اللہ الثالث نے اپنے قیمتی خزائن سمیٹے اور مصر کی سمت فرار ہو گیا۔ اُس کے فرار ہونے کی دیر تھی کہ قیروان کے باشندوں نے رقّادہ کے شاہی محل کو لُوٹ لیا۔ ابن ابی الاغلب شکست کا داغ لیے دار الحکومت پہنچا تو اُس نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کُتَامہ کے باغیوں کے خلاف آخری اور فیصلہ کن مزاحمت میں اُس کا ساتھ دیں، مگر عوام نے اس اپیل پر مطلق توجّہ نہ دی اور اغلبیوں کا مزید ساتھ دینے سے صاف انکار کر دِیا۔[26] آخر 25 مارچ 909ء کو بروز ہفتہ جب کہ اِسلامی تاریخ یکم رجب 296ھ تھی، ابُو عبد اللہ اپنے کُتَامہ بربری حامیوں کے ہمراہ رقّادہ میں فاتحانہ شان سے داخل ہوا اور اغلبیوں کے دار الحکومت کو اپنا مستقر بنا لیا۔ اُسی سال اُس کی افواج نے عبید اللہ کو سجلماسہ سے افریقیا لانے کا اِنتظام کِیا اور اُس نے افریقیا پہنچتے ہی المہدی باللہ کے لقب سے خِلافتِ فاطمیہ قائم کر دی۔[26]

مذہب[ترمیم]

اغلبی حنفی المسلک سُنّی اِسلام سے تعلق رکھتے تھے اور معتزلہ کی عقل پسند مذہبی تحریک سے وابستہ تھے۔ اغلبیوں نے یہ فِرقہ خلیفہ المامون (عہدِ خلافت: 813–833) کے دور میں عباسی خلافت کا سرکاری عقیدہ بننے کے بعد اپنایا تھا۔ اُمرائے اغلبیہ نے افریقیا میں اس فِرقہ کو باضابطہ حیثیت دینے کے لیے کوششیں کیں مگر اُنھیں اس ضمن میں فقہائے مالکیہ کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس مخالفت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ معتزلہ قُرآن کو اللہ کا ابدی کلام ماننے کی بجائے خدا کی مخلوق قرار دیتے تھے۔ اُمرائے اغلبیہ نے اگرچہ مالکی فقہ کے مذہبی رہنماؤں کے سیاسی اثر و رسوخ کو تسلیم کر لیا تھا، لیکن یہ فقہاء اپنے عقائد کے مطابق حکومتی نظام میں تبدیلی لانے سے قاصر رہے۔ قیروان کے قاضی نے فقہ حنفی کی تقلید کی اور خلق القرآن کے تصوّر کی تائید بھی کی۔ اغلبی اُمراء قضاۃ کے عہدہ پر عراقیوں کی تقرری کو ترجیح دیتے تھے جب کہ اُن کے وزراء کا تعلق فقہ مالکی سے ہوا کرتا تھا۔[27]

تاہم اغلبیوں نے اپنے مذہبی مؤقف کو مضبوطی عطا کی اور اپنے خلاف کی جانے والی تنقید کا بھی کامیابی سے مقابلہ کِیا۔ فقہ مالکی کے کچھ فقہاء کو معتزلی عقائد ردّ کرنے کی پاداش میں ستایا بھی گیا جن میں سہسون نامی ایک فقیہ کا نام قابلِ ذکر ہے جنھیں محمد الاوّل ابن الاغلب (دورِ حکومت: 841–856) کے دور میں خلقِ قرآن کے معتزلی عقیدہ کو ردّ کرنے کی پاداش میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ اغلبیوں نے مذہبی عمارات کی تعمیر و توسیع میں بھی فراخ دِلی سے خرچ کِیا، مثال کے طور پر زیتونہ مسجد کا نام لیا جا سکتا ہے جسے اغلبیوں نے 864ء میں دوبارہ تعمیر کرایا تھا۔[28]

اہلِ سُنّت مسلک کے حامل ہونے کے سبب اغلبی، عباسی حکمرانوں کے ماتحت تھے جو افریقیا میں اُن کے اثر و رسوخ اور حکومت کی نمائندگی کرتے تھے۔ اغلبیوں کے خارجی تعلقات کا اگر مذہبی نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے تعلقات تاہرت کی رُستمیہ حکومت سے کشیدہ رہے جو خوارج کے فِرقہ اباضیہ کی پیرو تھی۔ فاس کی ادریسی سلطنت سے بھی اغلبیوں کے تعلقات میں کشیدگی کا عنصر برقرار رہا کیوں کہ ادریسی حکمران اہلِ تشیع کے فِرقہ زیدیہ کے پیروکار اور توسیع پسندانہ عزائم کے حامل تھے۔ صقلیہ کی فتوحات میں اندلس کے امویوں سے عسکری امداد لینے کے علاوہ اغلبیوں کے تعلقات امارت قرطبہ کے اُموی اُمراء سے بھی کشیدہ ہی رہے۔[29]

اغلبیوں نے فنِ تعمیر پر بھی توجّہ دی اور اُنھوں نے موجودہ تیونس میں اِسلامی دور کی بہت سی قدیم عمارات یاد گار چھوڑیں۔ ان میں رباطِ سوسہ اور رباط المنستير کی صورت فوجی تعمیرات اور صفاقس اور سوسہ کی جامع مساجد کی صورت مذہبی تعمیرات شامل ہیں۔ اغلبیوں کے فنِ تعمیر کی بیشتر ساخت ایک بھاری اور تقریباً قلعے جیسی ظاہری صورت پر مبنی ہوتی تھی یہاں تک کہ مساجد بھی اسی طرز کی ہوا کرتی تھی تاہم اس کے باوجود اغلبیوں نے ایک باثر فنکارانہ میراث اپنی یاد گار چھوڑی ہے۔[30]

اغلبیوں کی سب سے اہم یاد گاروں میں سے ایک قیروان کی جامع مسجد ہے جسے 836ء میں امیر زیادۃ اللہ اوّل نے مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کرایا تھا، بعد کے ادوار میں بھی اس مسجد میں مختلف اضافے اور مرمتیں کی گئیں جن سے اس کی تعمیر کی تاریخ مزید پیچیدہ ہو گئی۔[30] مسجد ایک بہت بڑے مستطیلی صحن، ستونوں پر قائم مرکزی ہال اور اذان دینے کے لی ایک موٹے تین منزلہ مینار پر مبنی ہے اور یہ مینار شمالی افریقا کی سرزمین میں واحد ایسا مینار ہے جو آج تک اپنی صورت میں برقرار ہے۔[31] اس کی ساخت آج تک برقرار رہنے والے رومن لائٹ ہاؤسز کی ساخت سے مشابہ لگتی ہے۔ مسجد کا منبر اپنی قدیم صورت میں آج تک برقرار ہے، اسے عباسی دور میں عراق سے منگوایا گیا تھا اور اس پر منقش تختے نصب ہیں۔[30]

مسجد ابنِ خيرون جسے مسجد ابواب الثلاثہ یعنی تین دروازوں والی مسجد بھی کہا جاتا ہے، اس کے مرکزی حصے کو بعض علماء نے اِسلامی فنِ تعمیر میں سب سے پُرانا سجا ہوا بیرونی عمارتی فرنٹ قرار دیا ہے۔[32] تیونس میں واقع زیتونہ مسجد جس کی بنیاد تقریباً 698ء سے کچھ قبل رکھی گئی تھی، اس کی موجودہ صورت میں مجموعی حصہ اغلبی امیر ابُو اِبراہیم احمد (دورِ حکومت: 856–863) کی تعمیراتی کاوشوں کا ہے۔[33]

فہرست اُمرائے اغلبیہ[ترمیم]

  1. اِبراہیم اوّل (800–812)
  2. عبد اللہ اوّل (812–817)
  3. زیادۃ اللہ اوّل (817–838)
  4. ابُو عِقال الاغلب (838–841)
  5. محمد اوّل (841–856)
  6. ابو ابراہیم احمد بن محمد بن الاغلب (856–863)
  7. زیادۃ اللہ ثانی (863)
  8. محمد ثانی (863–875)
  9. اِبراہیم ثانی (875–902)
  10. عبد اللہ ثانی (902–903)
  11. زیادۃ اللہ ثالث (903–909)
  1. ^ ا ب اغلبی اور ان کے پڑوسی: نویں صد�� میں فنون اور مادی ثقافت، مصنفہ: مریم روزر اوون، ایڈیٹر: گلیر ڈی اینڈرسن، صفحات 2-3، 18 (2019)۔ Brill پبلیکیشنز
  2. ^ ا ب The New Islamic Dynasties، سی ای بوسورتھ، صفحہ 31، کولمبیا یونیورسٹی پریس، 1996ء
  3. ^ ا ب پ مغرب کی تاریخ: ایک تشریحی مضمون (انگریزی)، عبد اللہ العروی، صفحہ 116-117، پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1977ء
  4. ^ ا ب مشرقِ وسطیٰ کی مختصر تاریخ، آرتھر گولڈشميت، صفحہ 79، ویسٹ ویو پریس، کولوریڈو، 2002ء
  5. اسلام کی مختصر تاریخ، مصنفین: سیّد مظفر حُسین و سیّد سعود عثمانی، صفحہ 144، ویج پبلشنگ بکس، 2011ء
  6. ^ ا ب پ فاطمی مصر میں ریاست اور معاشرہ (جلد اوّل: داری عرب تاریخ و تہذیب، مطالعہ و متون)، یاکوف لیو، صفحہ 4-5، Brill پبلیکیشنز، 1991ء
  7. ^ ا ب پ ت ٹ ث عہدِ اِسلامی میں المغرب کی تاریخ، جمیل ابُو النّصر، کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1987ء
  8. اِنسائیکلوپیڈیا آف اِسلام، جلد دوم، صفحہ 463، مضمون ’’الجرید‘‘، مضمون نگار: جولین ڈیسپویس، ایڈیٹر: بی لیوس، طبع دوم، لائیڈن، برل پبلیکیشز
  9. ^ ا ب کتاب: قرونِ وسطیٰ کے سارڈینیا کی تشکیل، مضمون: بازنطینی سارڈینیا پر مسلمانوں کے ابتدائی حملے، مضمون نگار: ایلیکس مٹکاف، صفحات 126–159، ایڈیٹر: مارکو موریسو، برل پبلیکیشنز، 2021ء
  10. The Spread of Islam Throughout the World، ادریس الحریر، صفحہ 441، یونیسکو پبلشرز، 2011ء
  11. ^ ا ب The Byzantine Revival (780–842)، وارن ٹریڈ گولڈ، صفحات 274، سٹینفورڈ یونیورسٹی پریس، کیلیفورنیا، 1988ء
  12. ^ ا ب Where Three Worlds Met: Sicily in the Early Medieval Mediterranean، سارہ ڈیوس سیکرڈ، صفحہ 77، کارنیل یونیورسٹی پریس، 2017ء
  13. Islam: Art and Architecture, "The History of the Aghlabids", p. 131. Mazot, Sibylle (2011). ISBN 978-3848003808.
  14. ^ ا ب مہدی کی سلطنت: فاطمیوں کا عُروج، مصنف: هاينز هالم، انگریزی مترجم: مائیکل بونر، برل پبلشرز، 1996ء
  15. ^ ا ب A Companion to Byzantine Italy, "Byzantium and Islam in Southern Italy (7th–11th Century)", Annliese Nef, pp. 200–225. Brill, (2021) ISBN 978-90-04-30770-4.
  16. اغلبی اور ان کے پڑوسی: نویں صدی میں فنون اور مادی ثقافت، مصنفہ: مریم روزر اوون، ایڈیٹر: گلیر ڈی اینڈرسن، صفحات 470-490، 2019ء، Brill پبلیکیشنز
  17. Before the Normans: Southern Italy in the Ninth and Tenth Centuries, Barbara M. Kreutz, page 26 , University of Pennsylvania Press, (1991), ISBN 978-0-8122-0543-5.
  18. Before the Normans: Southern Italy in the Ninth and Tenth Centuries, Barbara M. Kreutz, page 35 , University of Pennsylvania Press, (1991), ISBN 978-0-8122-0543-5.
  19. A History of the Crusades، کینتھ میئر سیٹن، صفحہ 43، یونیورسٹی آف وسکونسن پریس، 1969ء
  20. A Companion to Sardinian History (500–1500)، ایڈیٹر: مشیل ہوبرٹ، صفحہ 119، Brill پبلیکیشنز، 2017ء
  21. Dictionary of Islamic Architectureتحت ’’اغلبیہ‘‘، آرچ نیٹ
  22. اِنسائیکلوپیڈیا آف اِسلام، جلد 8، تحت ’’رقّادہ‘‘، مُدیر: سی ای بوسورتھ، Brill پبلیکیشنز، طبع دوم، 1995ء
  23. Sicily in the Early Medieval Mediterranean، صفحہ 119
  24. ^ ا ب مہدی کی سلطنت: فاطمیوں کا عُروج، صفحہ 106-108
  25. مہدی کی سلطنت: فاطمیوں کا عُروج، صفحہ 107-117
  26. ^ ا ب پ مہدی کی سلطنت: فاطمیوں کا عُروج، صفحہ 118-120
  27. A History of Religious Thought in Early Islam, Volume 3, Josef van Ess, p. 519, 2017, Brill
  28. عہدِ اِسلامی میں المغرب کی تاریخ، جمیل ابُو النّصر، صفحہ 57 
  29. The Spread of Islam Throughout the World، ادریس الحریر، صفحہ 313
  30. ^ ا ب پ اسلامی مغرب کا فن تعمیر: شمالی افریقہ اور جزیرہ نما آئبیرین (700-1800)، جوناتھن ایم بلوم، صفحہ 21-41
  31. دی انسائیکلوپیڈیا آف اسلامک آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر، جوناتھن ایم بلوم، تحت: محراب، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، (2009)
  32. افریقیا: تیونس میں فنونِ لطیفہ اور فنِ تعمیر کی تیرہ صدیاں (دوسرا ایڈیشن)، مرتبین: علی الزواری، جمیلہ بنفوس، 2002ء
  33. اسلامی مغرب کا فن تعمیر: شمالی افریقہ اور جزیرہ نما آئبیرین (700-1800)، جوناتھن ایم بلوم، صفحہ 38